غزوہ احزاب۔ قران اور حدیث کی روشنی

غزوہ احزاب (جنگ خندق)

ایک سال سے زیادہ عرصے کی پیہم فوجی مہمات اور کاروائیوں کے بعد جزیرۃ العرب پر سکون چھا گیا تھا اور ہر طرف امن و امان اور آشتی و سلامتی کا دور دورہ ہو گیا تھا ؛ مگر یہود کو جو اپنی خباثتوں ، سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں طرح طرح کی ذلت و رسوائی کا مزہ چکھ چکے تھے ، اب بھی ہوش نہیں آیاتھا ۔ انہوں نے غدر و خیانت اور مکر و سازش کے مکروہ نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا چنانچہ خیبر منتقل ہونے کے بعد پہلے تو انہوں نے یہ انتظار کیا کہ دیکھیں مسلمانوں اور بت پرستوں کے درمیان جو فوجی کشاکش چل رہی ہے اس کا نتیجہ کیاہوتا ہے۔ لیکن جب دیکھا کہ حالات مسلمانوں کے لیے سازگار ہو گئے ہیں ، گردش لیل و نہار نے ان کے اثر و نفوذ کو مزید وسعت دے دی ہے ، اور دور دور تک ان کی حکمرانی کاسکہ بیٹھ گیاہے تو انہیں سخت جلن ہوئی ۔ انہوں نے نئے سرے سے سازش شروع کی اور مسلمانوں پر ایک ایسی آخری کاری ضرب لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کا چراغ حیات ہی گل ہو جائے ۔ لیکن چونکہ انہیں براہ راست مسلمانوں سے ٹکرانے کی جراءت نہ تھی اس لیے اس مقصد کی خاطر ایک نہایت خوفناک پلان تیار کیا ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو نضیر کے بیس سردار اور رہنما مکے میں قریش کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرتے ہوئے اپنی مدد کا یقین دلایا ۔ قریش نے ان کی بات مان لی ۔ چونکہ وہ احد کے روز میدان بدر میں مسلمانوں سے صف آرائی کا عہدو پیمان کرکے اس کی خلاف ورزی کر چکے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ اب اس مجوزہ جنگی اقدام کے ذریعے وہ اپنی شہرت بھی بحال کر لیں گے اور اپنی کہی ہوئی بات بھی پوری کر دیں گے ۔
اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو غطفان کے پاس گیا اور قریش ہی کی طرح انہیں بھی آمادۂ جنگ کیا ۔ وہ بھی تیار ہو گئے ۔ پھراس وفد نے بقیہ قبائل عرب میں گھوم گھوم کر لوگوں کو جنگ کی ترغیب دی اور ان قبائل کے بھی بہت سے افراد تیار ہوگئے ۔ غرض اس طرح یہودی سیاست کاروں نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے تمام بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کے لیے تیار کر لیا۔
اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش ، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا ۔ ان سب کا سپہ سالار اعلیٰ ابو سفیان تھا ۔ اور ان کی تعداد چار ہزار تھی ۔ یہ لشکر مرّالظہران پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے ۔ اُدھر اسی وقت مشرق کی طرف سے غطفانی قبائل فزارہ ، مرہ اور اشجع نے کوچ کیا ۔ فزارہ کا سپہ سالار عیینہ بن حصن تھا ۔ بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ ۔ انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے ۔
ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کار خ کیا تھا ۔ اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک زبردست لشکر جمع ہو گیا ۔ یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری آبادی ( عورتوں ،بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ملاکر بھی ) اس کے برابر نہ تھی ۔ اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا ۔ کچھ عجب نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا لیکن مدینے کی قیادت نہایت بیدار مغز اور چوکس قیادت تھی ۔ اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کی نبض پر رہتی تھیں اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی لگاتی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی ۔ چنانچہ کفار کا لشکرِعظیم جونہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا مدینے کے مخبرین نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی ۔
اطلاع پاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہائی کمان کی مجلس شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا ---------- اہل شوریٰ نے غور و خوض کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک تجویز متفقہ طور پر منظور کی ۔ یہ تجویز حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان لفظوں میں پیش کی تھی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے ۔
یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی ۔ اہل عرب اس سے واقف نہ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز پر فوراً عملدرآمد شروع فرماتے ہوئے ہر دس آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کاکام سونپ دیا اور مسلمانوں نے پوری محنت اور دلجمعی سے خندق کھودنی شروع کردی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق میںتھے ۔ لوگ کھدائی کررہے تھے اور ہم کندھوں پر مٹی ڈھو رہے تھے کہ (اسی اثناء میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللھم لا عیش الا عیش الآخرۃ فاغفر للمہاجرین والانصَار (1)
’’اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ۔ پس مہاجرین اور انصار کو بخش دے ‘‘۔
ایکدوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ مہاجرین و انصار ایک ٹھنڈی صبح میں کھودنے کا کام کررہے ہیں ۔ ان کے پاس غلام نہ تھے کہ ان کی بجائے غلام یہ کام کردیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک دیکھ کر فرمایا : 

اللھم ان العیش عیش الاٰخرۃ فاغفر للانصار والمہاجرۃ
’’ اے اللہ ! یقیناً زندگی تو آخرت کی زندگی ہے پس انصار و مہاجرین کو بخش دے ‘‘۔
انصار و مہاجرین نے ا سکے جواب میں کہا ۔ 

نحن الذین بایعوا محمدا علی الجہاد ما بقینا ابدا (2) 
’’ ہم وہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے جب تک کہ باقی رہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر بیعت کی ہے ‘‘۔
صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے مٹی ڈھو رہے تھے یہاں تک کہ غبار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت زیادہ تھے ۔ میں نے ( اسی حالت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے رجزیہ کلمات کہتے ہوئے سنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ڈھوتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے :

اَلّٰھُم لولا اَنتَ مَا اھتَدَینَا وَلا تَصدَّقنَا وَلَا صَلَّینَا
فَاَنزِلَن سَکِْینَۃً عَلَینَا وَثَبِّتَ الاَقدَامَ اِنْ لّا قَینَا
اِنَّ الا ولی رَغِبُوا عَلَینَا وَاِن اَرادُوا فِتنَۃً اَبَینَا
’’ اے اللہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے ۔ پس ہم پر سکینت نازل فرما ۔ اور اگر ٹکراؤ ہو جائے تو ہمارے قدم ثابت رکھ ۔ انہوں نے ہمارے خلاف لوگوں کوبھڑکایا ہے ۔ اگر انہوں نے کوئی فتنہ چاہا تو ہم ہرگز سر نہیں جھکائیں گے ‘‘۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری الفاظ کھینچ کر کہتے تھے ۔ ایک روایت میں آخری شعر اس طرح ہے ۔

اِنَّ الا ولی قَد بَغَوا عَلَینَا وَاِن اَرادُوا فِتنَۃً اَبَینَا (3) 
’’ یعنی انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ۔ اور اگر وہ ہمیں فتنے میں ڈالنا چاہیں گے تو ہم ہرگز سرنگوں نہ ہوں گے ‘‘۔
مسلمان ایک طرف اس گرم جوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دو مٹھی جو لایاجاتا تھا اور بُو دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیاجاتا تھا ۔ لوگ بھوکے ہوتے تھے اور اس کا ذائقہ حلق کے لیے ناخوش گوار ہوتا تھا ۔ اور اس سے بدبو اٹھ رہی ہوتی تھی ۔ (4)
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلایاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا شکم کھول کر دو پتھر دکھلائے ۔ (5

Comments

Popular posts from this blog

ﻠﻔﺎﺀ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺧﻼﻓﺖ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺧﻠﯿﻔﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻟﺠﻮﺍﺏ ﻭﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﻮﻓﯿﻖ : ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺧﻠﻔﺎﺀ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺣﺴﺐ ﺫﯾﻞ ﮨﮯ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ : ۲ﺳﺎﻝ ۳ ﻣﺎﮦ ﺩﺱ ﺩﻥ‏( ۱۲ ؍ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ۱۱ ؍ﮨﺠﺮﯼ ﺗﺎ ۲۲؍ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻻﺧﺮﯼ ۱۳ ؍ﮨﺠﺮﯼ ‏) ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ : ۱۰ ؍ﺳﺎﻝ ۶ ؍ﻣﺎﮦ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ‏( ۲۲ ؍ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻻﺧﺮﯼ ۱۳ ؍ﮨﺠﺮﯼ ﺗﺎ ۲۶ ؍ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۲۳ ؍ﮨﺠﺮﯼ ‏) ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ : ۱۱ ؍ﺳﺎﻝ ۱۱ ؍ﻣﺎﮦ ۲۲ ؍ﺍﯾﺎﻡ ‏( ۳؍ ﻣﺤﺮﻡ ۲۴ ﮪ ﺗﺎ ۲۵؍ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۳۵ ؍ﮨﺠﺮﯼ ‏) ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ : ۴ ؍ﺳﺎﻝ ﺁﭨﮫ ﻣﺎﮦ ۲۵ ؍ﺍﯾﺎﻡ ‏( ۲۶؍ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۳۵ ؍ﮨﺠﺮﯼ ﺗﺎ ۲۱ ؍ﺭﻣﻀﺎﻥ۴۰ ؍ﮨﺠﺮﯼ ‏

غزوہ بدر قرآن وحدیث کی روشنی میں

قاتل کون تھا؟ امام حسین کو شمر ذی الجوشن نے شہید کیا۔ بعض اہل علم نے لکھا ھے کہ شمر نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر پر نیزہ مارا  اور سنان بن انس نے نیزہ مار کر گھوڑے سے گرایا۔اس کے بعد خولی بن یزیدالاصبحی نے آگے بڑھ کر سر تن سے جدا کرنا چاھا تو اس کا ھاتھ کانپنے لگے اسی دوران اس کا بھائ شبل بن یزید آگے برھا اور اس نے گردن الگ کر دی۔ اس لشکر کا سپہ سالار عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ تھا۔اس کو یزید نے سپہ سالار بنایا تھا۔مورخین لکھتے ھین کہ عبید اللہ بن زیاد نے علی بن حسین اور ان خواتین کو جو حضرت اما حسین رض کے ساتھ تھیں ان کے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا۔ اور وعدہ خلافی کی۔ اور ظلم و ستم کیا عورتوں کو قید کیا معصوم بچوں کو اس قدر قتل کیا کہ جس تذکرے سے رونگٹے کھڑے ھوتے ھیں اور دل گھبراتا ھے۔یزید بن معاویہ اس دوران دمشق میں تھا۔ یہ لوگ جب راستے سے جارھے تھے  راستے میں ایک عبادت گاہ میں قیلولہ کیا تو اچا نک دیواروں پریہ شعر  لکھا ھوا نظر آیا ۔ اترجو امت قتلت حسینا   شفاعت جدہ یوم الحساب ترجمہ  کیا تم ایسی امت کے متعلق  جس نے حسین کو قتل کیا  ان کے نانا جان کی شفاعت کی امید رکھتے ھو۔ چنانچہ لشکر والوں نے راھب سے پوچھا یہ شعر کس نے تحریر کیا ھے؟ اور کب تحریر کیا گیا ھے؟ اس نے جواب دیا یہ شعر تو تمھارے نبی صلعم کی بعثت سے پانچ سو سال قبل لکھا ھوا ھے۔ اما حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت  60 ھجری میں ھوئ بقول امام ابو حنیفہ رح  اور آپ صلعم کی وفات کو پچاس سال گزر چکے تھے